Pages

Sunday, April 29, 2012

صدر جمہوریہ کے عہدے کے لئے اہل شخص کا انتخاب.

صدر جمہوریہ  کے عہدے کے لئے اہل شخص کا انتخاب کرتے وقت ہمے سیاستدانو کو اپنی سوچ کے دایرے سے بہت دور رکھنا چاہیے. انکے لئے بہت سے عہدے پہلے سے ہی دستیاب ہے. وزیر ازم، وزیر آلہ، مختلف کمیشنوں کے چیرمن وگیرہ وگیرہ. سیاست دانوں کو کم سے کم صدر جمہوریہ کو بخش دینا چاہیے. یہ سیاسی کرسی نہیں ہے. قومی عہدہ ہے. جو لوگ یہ اصرارکرتے ہیں کے ممبر پارلیمنٹ اور ممبران اسسمبلی  کے عہدے پر منتخب ہونے کے لئے کچھ اہلیت تی کی جنی چاہیے، انھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کے صدر اور نایب صدر کے لئے بھی کوئی تعلیمی یا کسی دوسری قسم کی اہلیتیں مکرّہ نہیں کی گی ہے. ایسا ہونا مناسب بھی ہے. بیرونی صلاحیتوں جیسے تعلیم کی ڈگری، کسی خاش عہدے پر کام کرنے کا تجربہ سے محروم ہونے پر  بھی کوئی شخص ملک کے لئے بیکار  یا نکساندۂ ہو سکتا ہے. اس پر بحث کرنا کون چاہیگا؟ عوامی زندگی میں تو میں کہوںگا، ذاتی زندگی میں بھی، کے شخشیت اور کردار کی قیمت دیگر کسی بھی چیز سے زیادہ ہے. اس معملے میں میں اپنی پرانی کہاوت کا مادہ ہوں. اگر دولت گیا تو کچھ گیا. صحت گیا تو بہت کچھ گیا. لیکن کردار گیا تو سب کچھ چلا گیا. میں تو یہ بھی کہنے کو تییار ہوں کے کردار کی قیمت علم سے بھی زیادہ ہے. علم ہو تو کردار کا ہونا ضروری نہیں ہے. مگر کردار ہو تو اپنی   کردار کے مطابق علم حاصل کیا جا سکتا ہے. جو لوگ ابھی تک صدر کے عہدے کے اہل افراد کا انتخاب کرتے رہے ھیں ان کے لئے میرے دل میں تعریف کا بہت زیادہ احساس نہیں ہے. یہ تو بہت واضح ہے کے ہندوستان اپنے صدر کا انتخاب کس طرح کرتا ہے. اس کا کوئی معیار نہیں بن پایا ہے. دو تین مثالوں کو چھوڈ کر ام طور پر سیاست دانوں کو ہی اس ملک کے اس علی ترین عہدے کے قابل سمجھا جاتا ہے. اقتدار اگر کسی ایک پرتھے کے ہاتھ مے ہو تو اسکا لیڈر توجو رکھتا ہے کے راشٹرپتی بھوں میں رہنے والے کو ہر طرح سے اسکے مطابق ہونا چاہیے. اس کے لئے کی بار ضروری عہدو کا خیال بھی نہیں رکھا گیا ہے. موحترما پرتیبھا پاٹیل کے انتخاب کے دور میں جو ایک اچھی بات ہی تھی. وہ صدر کے امیدواری کے لئے صنعت، فلم، ٹیکنولوجی کے طرف بھی نظر ڈالا گیا. بہتوں کے نگاہ میں رتن ٹاٹا ایک مناسب امیدوار تھے. اس بار بھی انکا نام لیا جا سکتا ہے. لیکن اگلے صدر جمہوریہ کے لئے فلحال جن نامو کا ذکر سامنے ا رہا ہے انمیں سیاسی لیڈر ہی ھیں. انکے بارے میں قیاس کرنے کی بنیاد یہی ہے کے کونگرسس کے لئے کون  سی شخصیت معتبر ہوگی. اور اگر کونگرسس اپنے امیدوار کو جتوا نہیں سکتی تو اتحاد کی سیاست کا ووٹ بلاخر کس شخصیت کے حق میں جاےگا؟ یہ نظارہ بہت متاثر کرنے والا نہیں ہے. سیاست کا درجہ می بہت اپر کا سمجھتا ہوں. مگر آج کی دنیا میں اور خاش کر آج کے ہندوستان میں سیاست کا جو حصر ہو رہا ہے، اسکے نتیجے میں سیاست دانوں کی نظر صرف ڈگری کی طرف جا رہی ہے. ہندوستان میں یہ سورتحال سبسے زیادہ افسوسناک ہے. کیونکی ہم تمام کی زندگی اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے. اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی میرا حق یہی ہوتا کے صدر جہوریہ کے عہدے کے لئے اہل شخص کا انتخاب کرتے وقت ہمیں سیاست دانوں کو اپنی سوچ کے دایرے سے بہت دور رکھنا چائے. ہندوستان میں صدر جمہوریہ کا عہدہ اقتدار کا عہدہ نہیں ہے. حلانکی صدر کا انتخاب اقتدار میں پہنچے لوگ ہی کرتے ھیں. کچھ خاص صورتوں کو یا حالت کو چھوڈ کر صدر کا کوئی اپنا بنیاد بھی نہیں ہوتا.  اپنے عام طور پر تمام کام مرکزی کابینہ کی ازاجت کے بنیاد پے ہوتا ہے. یہاں تک کے جب بجٹ اجلاس شروع میں جب وہ دونو ایوانوں کو ایک ساتھ خطب کرتا ہے. تب بھی وہ اپنے دل کی کوئی بات نہیں  کہ سکتا.وو وہی تقرر پڑھ سکتا ہے جس کی کابینہ اجازت دے چکا ہے. ہمارے آئینی ڈھانچے میں صدر جمہوریہ کی اقتدار اور ابتدائی مقصد سیاسی نہیں ہے، اخلاقی اقتدار ہے. وو کابینہ کو سانجھا سکتا ہے. مگر کسی بھی چیز کے لئے اسے مجبور نہیں کر سکتا. مجبور کرنے کی صلاحیت نہ ہونے میں کچھ گلت بھی نہیں ہے. جمہوریت میں منتخب اقتدار ہی اصل اقتدار ہوتی ہے. بہرحال اب جبکے نے صدر کا انتخاب کچھ ہی مہینو میں ہونے والا ہے، ہمیں یہ ماحول بنانا چاہیے کے اس عہدے پر کسی قابل قبول اور باوقار شخصیت کو بٹھانا چاہیے. ظاہر ہے وو شخص خود تو درخاست کرنے سے رہا ہے کے آپ لوگ مجھے صدر بنا دیں. ہمیں ہی اسکے پاس جانا ہوگا. اس سے درخاست کرنا ہوگا. اسے راضی کرنا ہوگا. اور ہماری درخاست کپ قبول کر لے تو اس کے بعد اس کے لئے اتفاق ہونا ہوگا. ایسا شخص کون ہو سکتا ہے؟ ایمانداری سے نظر اٹھائی جائے تو کی لوگ ہو سکتے ھیں. جو نام فوری طور پر سمجھا جا رہا ہے، وو امرتیہ سن کا ہے. میرے اندازہ کے مطابق اس وقت ہندوستان کے پانچ سبسے زیادہ قابل میں ایک ہے. انھ ملک کے علی عزاز بھارت رتن  سے بھی نوازہ جا چکا ہے. وو پارلیمنٹ کو بھی خطاب کر چکے ھیں. ان پر کوئی شدید تنازعہ ہونے کا بھی امکان نہیں ہے. می کسی ایک نام پر زور نہیں دے رہا ہوں. میری درخاست صرف یہ ہے کے اس بار کسی بدی دانشور، سماج سوی وغیرہ کو ہی صدر جمہوریہ بنانے کی کوشش ہونی چاہیے. اس سے عہدے کے وقار کا نہ یا باب کھلے گا.